Lahore: The 3-day celebrations of 21th annual Urs of spiritual leader and Sufi intellectual, Hazrat Wasif Ali Wasif started at Bahawalpur Road, here today.
Muhammad Bilal Sheikh and Sirdar Nasrullah Dreshak accompanied by a large number of devotees performed Rasam-Chadar Poshi of the mazar at Miani Sahib Graveyard.
On the second day of the Urs on June 03, a seminar will be held regarding the personality and teachings of Hazrat Wasif Ali Wasif at Alhamra Hall No 1 under the chairmanship of Justice (Retd) Syed Afzal Haider. Munno Bhai will be the chief guest on the occasion while the speakers include Dr. Khizar Naushahi, Dr. Sughra Sadaf, Naeem Bukhari, Asmat Tahira and Saleem Tahir.
حضرت واصف علی واصفؒ کی پنجابی شاعری میں صوفیانہ روایت
تحریر : محمد عارف
حضرت واصف علی واصفؒ لمحہء موجود کے ان معروف و مقبول صوفی دانش وروں میں سے ہیں جنہوں نے علمی استدلال، تفکر و تدبر اور دانائی و بینائی سے آج کی بھولی بھٹکی انسانیت کے رشتہء خالق کائنات سے مضبوط بنایا۔ وہ بنی نوع انسان کی فکری انارکی، ذہنی جمود، اور لاحاصلی کو بار بار موضوع بناتے ہیں تاکہ ہمیں اپنے مقصد حیات کے تعین میں آسانی ہو سکے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ انہوں نے شیخ آحمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ کی طرح تجدید دین کافریضہ سرانجام دیا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے ذہن و فکر کے زنگ آلود خانوں کو سیکل کیا۔ عقل و شعور کو میمیز دی ۔ تعلیم یافتہ طبقے کو شریعت، طریقت اور حقیقت کے راستے پر گامزن کیا۔ واصف علی واصفؒ کا پنجابی شعری مجموعہ ’’ بھرے بھڑولے‘‘نومبر1994 ء میں شائع ہوا۔ جس کاسرورق محمد حنیف رامے نے بنایا ہے۔ واصف علی واصفؒ کی پنجابی شاعری کے مجموعی تاثر صوفیانہ طرز فکر کا ہے۔ جس کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کی اجتماعی صوفیانہ روایات کے علاوہ اپنے علاقے پنجاب کے صوفیانہ اشارے بھی دیئے ہیں۔ واصف علی واصفؒ ایک روحانی شخصیت تھے۔ جن کے روحانی تجربے محولہ بالا صوفیانہ تجربات کے ساتھ مملو ہو کر ایک جداگانہ رنگ پیش کرتے ہیں۔ واصف علی واصفؒ خواجہ میر درد کے بعد اردو پنجابی شعری روایت کے وہ واحد صوفی شاعر نظر آتے ہیں جن کی ابتداء سے لے کر آخر تک ہر دوزبانوں میں کی گئی شاعری تصوف کے نظری پہلوؤں کی بجائے عملی تصورات کو سامنے لاتی ہے۔ واصف علی واصفؒ خواجہ میر درد کے بعد اس صوفیانہ شاعری روایت کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ کیونکہ ایسے لوگ صدیوں کے بعد صفحہء ہستی پرطلوع ہوتے ہیں جو تصوف کے روحانی، جمالیاتی تجربات کی باریک بینی کو حق الیقین کی منزل سے نہیں بلکہ عین الیقین کے مقام سے دیکھتے ہیں۔ واصف علی واصفؒ ان خواصان خدا میں شمار ہوتے ہیں جن سے قدرت کاملہ نے یہ عظیم کام لیا کہ انہوں نے اپنی روحانی واردات قلبی کو اپنی شاعری کا مرکزی جوہر بنایا ہے۔ واصف علی واصفؒ کے پنجابی شاعری کامجموعہ’’ بھرے بھڑولے‘‘ پڑھنے سے صوفیائے کرام کی تعلیمات کے نقش ہر طرف بکھرے نظر آتے ہیں۔ وہ خدا کے تقرب کے حصول کے لئے عشق کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ۔ دنیا کی بے ثباتی، شیخ کامل کی ضرورت ، عشق رسولﷺ جیسے موضوعات ان کے ہاں باربار نظر آتے ہیں۔ میں ان کے زیرِ نظر مجموعے میں موجود ان کی ایک نظم’’ چادر‘‘ کی بطورِ خاص تحسین کرناچاہوں گا جس میں ان کی والہانی محبتوں اور چاہتوں کے نقوش ہمیں ہر طرف نظر آتے ہیں۔
وارث کھول دے منہ خزانیاں دا
کرے رو کے اج سوال چادر
مستی لے کے جام الست وچوں
کیتا یار دے نال وصال چادر
واصف علی واصفؒ کی نظموں میں فنا کا احساس غالب ہے۔ وہ ان میلیوں، کہنہ مکرنیوں، دوہوں، اور چکی ناموں کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خوب صورت ادبی انداز اپناتے ہیں۔ تاکہ قاری کو فکرِ آخرت کے لئے تیار کیا جا سکے۔ یہ دنیاچند روزہ ہے۔ صوفی ،سادھو، مست الست فقیر، واعظ مولوی اور پنڈت ، سب اپنے اپنے رنگ میں انسانوں کو حقیقی منزل کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اردو کے صوفی شعراء کی شاعری کو غور سے پڑھیں تویہ موضوع ہر طرف چھایا ہوا ہے۔ خود پنجابی شعراء کے ہاں بھی یہی شعری روایت تخلیقی تجربے کی فنی مہارت سے مربوطہ ہو کر قاری کی سماعتوں کو تروتازگی عطاکرتی ہے۔ واصف علی واصفؒ کی شاعری کے مجموعے میں موجود ایک نظم کے مندرجہ ذیل مصرعے میرے دعوے کی عملی دلیل ہیں۔
ساڈے وہڑے جوگی آیا
بنڑی مصیبت بھاری اے
پیکے گھر وج کد تک رہنٹرا
اج سسرال تیاری اے
جو چاہندا اوہ آپے کردا
نہ کوئی جیندا نہ کوئی مردا
صدقے جایئے اس سوہنڑے دے
جس دی شان نیاری اے
واصف علی واصف ؒ کی شاعری میں صوفیانہ لَے نظم و غزل ہر دو اصنافِ سخن میں موجود پائی جاتی ہے۔ وہ کبھی سسی کی طرح روہی کے تھل میں تڑپتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی ان کے دل میں ہر طرف شور برپا ہوجاتا ہے۔ ان کی سسی کا شہر بھنبھور اجڑ جاتا ہے۔ شاید یہی وہ جذبہء عشق حقیقی ہے۔ جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں تڑپنا ، کسمسانا، تلملانا، انسان کا خاصہ قرار پاتا ہے۔ بالاخر تو من شدی من تو شدم کا معاملہ پیش آ جاتا ہے۔ واصف علی واصفؒ کی شاعری میں ایک اہم موضوع عشق رسولﷺ ہے وہ اپنی پنجابی شاعری کے ذریعے معرفت و سلوک کے وہ پیچیدہ و دقیق علمی تفاوت سامنے لاتے ہیں کہ عقلِ انسانی شسدر اور حیران رہ جاتی ہے ۔ وہ عشقِ رسولﷺ کو حاصلِ کائنات قرار دیتے ہیں کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو عرفانِ ذات سے ہمکنار کرتا ہے اور اس کے لئے باعثِ نجات ہے۔
اودھی گھر گھر نوبت وجدی
ایہہ ازلی گل، نہ اج دی
اوہ دی بکل مار کے گل کردا ساڈے نال
اونہوں ملنا سوکھی گل اے
اوہ آپے ساڈے ول اے
تسی بیٹھوں اونہوں سور دے
اوہ جاوے دیوا بال
واصف علی واصفؒ کی شاعری میں اسرار و رموز، ہست و بود، فلسفہ تخلیق کائنات اور تعلیمات قرانی کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری اپنے مخصوص رنگ میں علم حقیقت کی اتھاہ گرائیوں کو اجاگر کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
عشق الست بلا دا قصہ عشق نفی اثبات
کثرت دے وچ عشق دی وحدت
وحدت وچ تکبیر
عشق مزمل، عشق مدثر، طہٰ تے یسینٰ
ظاہر باطن ذات عشق دی
ایہو مڈھ اخیر
واصف علی واصفؒ آج کے انسان کو فکرِ آخرت کے لئے تیار کرتے ہیں۔ وہ عالمگیر محبت، بے مثال اخوت کے دعوے دار ہیں۔ وہ خود غرضی، حرص و ہوس اور لالچ کے عفریت کو مٹانے کے درپئے ہیں۔ تاکہ صبر و شکر، توکل اور قناعت کے اوصاف کو اپنا کر انسان اپنے حقیقی منزل سے ہمکنار ہو سکے۔
اے دو چار دنا دا میلا دنیا دا
میلا ویکھ تو سنجاں ایتھے ہٹ نہ پا
کریں نہ اتھے روپ دا مانٹر
منہ تے پیارے مٹی پانڑ
کوئی دیویں کم دی مت بھرا
اتھے کد آواں گے وت بھرا
جنہیں بولیا حرف محبت دا
اتھے اوہدی بنڑدی گت بھرا
محمد عارف وائس پرنسپل، ترنول کالج، ترنول ضلع اسلام آباد
http://www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
Linux VPS | Dedicated Servers | Urdu Home